یہ 15 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'Bastille Day 1789—Bastille Day 2023' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
جمعہ 14 جولائی باسٹیل پر ایک پرجوش یلغار نے حملہ کر کے اسکا محاصرہ کر لیا جسکی آج 234 ویں برسی منائی گئی، پیرس کا وہ قلعہ جو فرانسیسی قدیم حکومت کی ناانصافی اور جابرانہ طاقت کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تھا - جاگیردارانہ املاک کے تعلقات پر قائم فرانس کی پرانی حکومت جس پر بادشاہت کا راج اور جو اشرافیہ کی بنیاد تھی۔ پیرس کے عوام کے سماجی دھماکے کے پھٹنے سے پہلے کے مہینوں اور ہفتوں میں طویل سیاسی بحران مسلسل تشکیل پا رہا تھا۔ ریاستی دیوالیہ پن اور مسلسل سکینڈلز نے حکومت کے وقار اور اختیار کو مجروح کر کے رکھ دیا تھا۔ فرانس کے سماجی ڈھانچے میں گہری تقسیم پیدا ہو چکی تھی اور مختلف 'اسٹیٹوں' میں منظم، سیاسی زندگی کی سطح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ 'تیسری ریاست' جو کہ آبادی کی بڑی اکثریت پر مشتمل تھی وہ ابھرتی ہوئی بورژوازی کی قیادت نے خود کو اشرافیہ کی دو ریاستوں کے مقابلے میں آزادانہ طور پر منظم کرنا شروع کر دیا تھا۔
باسٹیل کی دیواروں کے باہر بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو قلعے کے اندر سے توپوں کی گولیوں کی گرج کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن عوام نے اسلحہ حاصل کیا اور شہر کے فوجی محافظوں کے ایک حصے کو جیتے ہوئے ساتھ ملا لیا۔ قلعہ کی دیواروں کو عوام نے توڑ دیا، جنہوں نے اس کے محافظوں کے خلاف ان سے خونی انتقام لیا۔ 1901 اور 1904 کے درمیان لکھی گئی اپنی سوشلسٹ ہسٹری آف دی فرانسیسی انقلاب میں ژاں جورس نے لکھا:
باسٹیل کو زیر کرنے کا اثر بحیثیت مجموعی بہت زیادہ پڑا تھا۔ دنیا کے تمام لوگوں کو ایسا لگتا تھا کہ انسانیت کی جیل گر گئی ہے۔ اور یہ انسانی حقوق کے اعلان سے زیادہ تھا۔ یہ انسانی حقوق کی خدمت میں لوگوں کی طاقت کا اعلان تھا۔ یہ صرف روشنی نہیں تھی جو پیرس سے کائنات کے مظلوموں تک پہنچی۔ بلکہ غلامی کی تاریک رات میں قید لاکھوں دلوں میں آزادی کی پہلی صبح کی کرن بالکل اسی لمحے طلوع ہوئی۔
کنگ لوئس 16ویں جو پیرس سے 20 میل جنوب میں واقع ورسائی میں اپنے محل میں مقید تھا شام کو دیر گئے تک بغاوت کے بارے میں اُسے اطلاع نہیں ہوئی تھی جب وہ اپنی نیند سے بیدار ہوا اور اسے ڈیوک آف لا روچفوکولڈ-لیانکورٹنے نے رپورٹ دی۔ بے چین بادشاہ نے پوچھا 'لیکن کیا یہ بغاوت ہے؟'۔ ’’نہیں جناب‘‘ ڈیوک نے جواب دیا۔ 'یہ ایک انقلاب ہے!'
پیرس کے معاہدے کے صرف چھ سال بعد آنے والا فرانس کا انقلاب جس نے برطانیہ پر امریکی نوآبادیات کی فتح کا ضابطہ بنایا اور عالمی تاریخ میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اپنے وسیع پیمانے اور سیاسی حرکیات میں اس نے اسے مجسم کیا جسے ٹراٹسکی نے بعد میں اسے 'عوام کے اپنے مقدر پر حکمرانی کے دائرے میں شعوری مداخلت ' کہا۔
انقلاب بے پناہ سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ابھار کے دور کی سیاسی انتہا تھی۔ یہ روشن خیالی کے نام سے مشہور فکری انقلاب سے متوقع تھا جس نے بنی نوع انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عقل کی طاقت کو برقرار رکھا۔ اس زمانے کے عظیم مادیت پسند فلسفیوں نے انسانی معاشرے کے سائنسی مطالعہ اور اس نقط نظر سے اس فرسودہ معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کی تنقید کو جاری رکھا جو اس کی ناانصافیوں اور بادشاہوں کے خدائی حق کو مذہبی افسانوں کے ساتھ جائز قرار دینے کے لیے انکے خلاف ایک طاقتور فکری تحریک فراہم کی۔
اس کے انتہائی ریڈیکل روشن خیال مفکرین نے اپنی تنقید سماجی عدم مساوات اور امیروں کے مراعات پر مرکوز کی۔
'کیا معاشرے کے تمام فوائد طاقتور اور امیر کے لیے نہیں ہیں؟' ژاں جیکس روسو نے 1755 میں ان الفاظ میں سوال کیا جو آج بھی گونج رہے ہیں۔ کیا تمام منافع بخش عہدوں کو یہ اکیلے ہی پُر نہیں کرتے؟ کیا تمام مراعات اور رعایتیں ان کے لیے مخصوص نہیں ہیں؟ اور کیا عوامی اتھارٹی مکمل طور پر ان کے حق میں نہیں ہے؟ جب کوئی بلند پایہ آدمی اپنے قرض داروں کو لوٹتا ہے یا دوسرے طریقوں سے دھوکہ دیتا ہے، تو کیا وہ ہمیشہ معافی کا یقین نہیں رکھتا؟
روسو کی سب سے مشہور تصنیف دی سوشل کنٹریکٹ، جو 1762 میں لکھی گئی تھی کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور ہر جگہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔‘‘
اس دور کے عظیم مفکرین کی سماجی تنقید نے خود کو فوری طور پر انقلاب میں تبدیل نہیں کیا۔ عوام کے عمل میں اظہار تلاش کرنے کے لیے ان کی دانشورانہ محنتوں کے مضمرات کے لیے دہائیاں درکار تھیں۔ لیکن فرانس کے انقلاب کی رفتار تیز ہوئی اس نے آبادی کی وسیع پرتوں کو سیاسی سرگرمیوں میں کھینچ لیا اور بڑی ریڈیکل سیاسی وسعتیں اختیار کیں۔ 1785 میں جس چیز کا شاید ہی تصور کیا جا سکتا تھا کہ بادشاہت کا خاتمہ، جاگیردارانہ مراعات اور جائیداد کے تعلقات کا خاتمہ، ایک جمہوریہ کا قیام اور بادشاہ کی پھانسی یہ اس کے بعد کی دہائی کے دوران ایک حقیقت بن گئی۔
لیون ٹراٹسکی نے اپنے ہسٹری آف دی روسی ریوولوشن میں فرانس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں لکھا، ’’ایسا لگ رہا تھا جیسے معاشرے کی بنیاد ہی کو مہذب بورژوازی نے پیروں تلے روند دیا جو ہلچل مچا رہا ہے اور زندہ ہو رہا ہے۔‘‘ 'انسانی سروں نے اپنے آپ کو اٹھا لیا جب کہ ٹھوس بڑے پیمانے پر بے ہنگم ہاتھ اونچے پھیلے ہوئے مدھم لیکن جرات مند آوازیں چلائی گئیں! انقلاب کے گڑھ پیرس کے اضلاع اپنی مرضی کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ پہچانے گئے — انہیں نہ پہچاننا ناقابل بیان تھا! — اور حصوں میں تبدیل ہو گئے۔ لیکن وہ قانونی حدوں کو مسلسل توڑتے رہے اور نیچے سے تازہ خون کا کرنٹ حاصل کرتے رہے قانون کے باوجود اپنی صفیں ان لوگوں کے لیے کھولتے رہے جن کا کوئی حق نہیں یعنی کہ بے سہارا لوگوں کے لیے۔
رجعت پسندوں کی طرف سے انقلاب کو شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ قدامت پسندوں اور اعتدال پسندوں نے انقلاب کی ' تجاویزات ' کی مذمت کی۔ لیکن سب سے زیادہ ترقی پسند مفکرین اس کے دفاع کے لیے نکل پڑے۔ لوئس 16 ویں کی پھانسی اور انقلاب کے دفاع میں پھیلائی گئی شدید ہراس و خوف کی مذمت کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے تھامس جیفرسن نے کہا کہ وہ انقلاب کی شکست کو دیکھنے کے بجائے 'آدھی دنیا کو ویران' دیکھنا پسند کریں گے۔ انہوں نے لکھا، ’’ہر ملک میں ایک آدم اور ایک حوا کے سوا باقی رہ گئے تھے اور آزاد ہو گئے تھے،‘‘ انہوں نے لکھا، ’’یہ اس سے بہتر ہوتا جیسا کہ اب ہے۔‘‘
فرانس کے انقلاب کی آج کے لیے کیا اہمیت ہے؟ یقیناً ہم بورژوا جمہوری دور میں نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے دور میں ہیں۔ تاہم، عدم مساوات، جائیداد اور قائم شدہ نظام کی انقلابی تنقید کا نچوڑ سرمایہ دارانہ زوال اور بحران کے حالات میں بے پناہ قوت حاصل کر لیتا ہے۔
یہ سب سے پہلے اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال پیرس نے انہی سڑکوں اور راستوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالیں دیکھی ہیں۔ اگر فرانس کے محنت کشوں نے ابھی تک سرمایہ داری کو گیلوٹین (گلہ کاٹنے کی مشین) کے حوالے نہیں کیا ہے لیکن ان کی جدوجہد کا مواد براہ راست 'امیروں کے صدر' ایمانوئل میکرون کے خلاف سیاسی لڑائی اور موجودہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کا تختہ الٹنے کی ضرورت کو جنم دیتا ہے۔ پنشن میں کٹوتیوں اور پولیس تشدد کے خلاف مظاہروں کے خلاف اپنے وحشیانہ حالیہ کریک ڈاؤن سے میکرون نے کل ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ویلکم کے لیے سرخ قالین بچھا کر اسکا آستقبلال کیا جو کہ گجرات کے فاشسٹ قصاب ہیں جو بے پناہ غربت اور بدحالی کے معاشرے پر حکمرانی کرتے ہیں۔
زندگی کے ناقابل برداشت حالات پوری دنیا میں سماجی جدوجہد کو جنم دے رہے ہیں۔ اس سال برطانیہ میں پوسٹل ورکرز، ہیلتھ کیئر ورکرز، اساتذہ، ریل ورکرز اور محنت کش طبقے کے دیگر طبقات کی ہڑتالیں اور دیگر جدوجہد دیکھی گئی ہے۔ جمہوری حقوق پر حملے کے خلاف اسرائیل میں بڑے پیمانے پر احتجاج؛ کینیڈا میں 1,400 نیشنل اسٹیل کار ورکرز اور 7,400 ڈاک ورکرز کی ہڑتال، اس ہفتے حکومت کی مداخلت سے بند ہو گئی۔ اور اسٹریٹی کے خلاف سری لنکا میں سیکڑوں ہزاروں مزدوروں کی مسلسل ہڑتالیں اور مظاہرے یہ صرف چند ایک کا حوالہ ہے۔
ریاستہائے متحدہ میں دسیوں ہزار اداکاروں کی ہڑتال، 11,000 مصنفین کی جاری ہڑتال کے دوران آنے والی امریکی فلم اور ٹیلی ویژن پروڈکشن کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کا آغاز ہے اور اسکے ساتھ ہی تعلیمی کارکنوں، کلیریوس اور سی این ایچ مینوفیکچرنگ ورکرز کی ہڑتالیں۔ یہ ہڑتالیں یو پی ایس کے مزدور، آٹو ورکرز، اور ڈاک ورکرز کی بڑھتی جدوجہد کو زبردست قوت اور حوصلہ فراہم کریں گی جو اس سال کے دوسرے نصف میں ٹریڈ یونین کے ڈھانچوں کے کنٹرول سے باہر پھوٹ پڑنے کا اظہار کر رہی ہیں۔
لامحالہ محنت کش طبقے کے شعور پر ابتدائی طور پر ان فوری حالات اور مسائل کا غلبہ ہوتا ہے جن کا انہیں سامنا ہے۔ تاہم ان تمام جدوجہد کی منطق نہ صرف فوری تنظیمی مسائل کو جنم دیتی ہے یعنی کہ یونین سازی کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے آزاد رینک اینڈ فائل کمیٹیوں کی تشکیل کی ضرورت - بلکہ سماجی تعلقات کی غیر معقولیت اور ان کی معاشرے کی ضروریات کے ساتھ ان کی عدم مطابقت بھی ہے۔
سرمایہ داری اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے اور حکمران طبقہ حکمرانی کا اپنا 'حق' کھو چکا ہے۔ جب ڈزنی کے سی ای او باب ایگر جنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں 200 ملین ڈالر سے زیادہ کا معاوضہ وصول کیا، حیران کن جو اداکاروں اور لکھاریوں کی 'امید کی سطح کی مذمت کرتے ہیں کہ انکے یہ مطالبات حقیقت پسندانہ نہیں ہے اسکا بے شک ' لوئس 16ویں اور فرانسیسی اشرافیہ کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ ناگزیر عصری کارپوریٹ اور مالیاتی مالکان کے مقابلے میں میری اینٹونیٹ تقریباً انسان دوست معلوم ہوتی ہے۔ فرانسیسی ملکہ نے عوام کے بارے میں کہا، 'انہیں کیک کھانے دو۔' آج کے کارپوریٹ مالکان اگر وہ اس سے بچ سکتے ہیں تو آبادی کے ایک بڑے حصے کو بھوکا رہنے دیں گے۔
سرمایہ دارانہ حکومتوں کی جان بچانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے سے دانستہ اور مجرمانہ انکار کی وجہ سے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں عالمی وبا نے 20 ملین سے زائد افراد کی جان لے لی ہے کیونکہ ایسے اقدامات اٹھانے سے اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سرمایہ دارانہ حکومتیں ہنگامی طور پر تیار ہیں مگر وہ کچھ نہیں کرتی ہیں جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی امریکہ میں ریکارڈ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے لے کر مون سون تک تباہ کن نتائج پیدا کرتی ہے جس نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہندوستان میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ اور اسکے نیٹو کے اتحادیوں کی ترجیح روس کے خلاف جنگ کے مطلق ہے 'جتنا وقت لگے' اُسے اُس وقت تک اس جنگ کو بڑھانا ہے ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے جس طرح کل اپنے مضمون میں لکھا تھا حقیقت میں اس کا مطلب یہ ہے چاہے کتنے ہی لوگ یوکرین روس پورے یورپ میں اور بھی کہیں مر جائیں انہیں اس سے غرض نہیں ہے. نیٹو کی تمام طاقتوں نے فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافے کا وعدہ کیا جو لامحالہ سماجی پروگراموں کی باقیات کی تباہی سے رونما ہو گا۔
بنیادی طور پر ہر چیز سماجی عدم مساوات کی انتہائی سطحیں چھو رہی ہیں جو فرانسیسی اشرافیہ کے لیے بھی باعث حیرانی بن سکتی ہیں۔ 2,460 امیر ترین افراد نے 2023 کی پہلی ششماہی میں اپنی دولت میں 852 بلین ڈالر کا اضافہ کیا، جب کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی 6.25 ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی بسر کرتی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ان کو کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔
انقلابات جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی فرانس کے تجربات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس وقت پیدا ہوتا ہے جب موجودہ سماجی رشتوں کی وجہ سے معاشرے کی مزید ترقی روک جاتی ہے۔ 'ترقی کے ایک خاص مرحلے پر معاشرے کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں سے متصادم ہو جاتی ہیں یا یہ محض قانونی اصطلاحات میں اسی چیز کا اظہار کرتی ہے اس فریم ورک کے اندر جائیداد کے تعلقات کے ساتھ جس کے وہ اب تک کام کرتے رہے ہیں۔ پیداواری قوتوں کی نشوونما کی شکلوں سے یہ رشتے بیڑیوں میں بدل جاتے ہیں۔ اس کے بعد سماجی انقلاب کا دور شروع ہوتا ہے۔
بنی نوع انسان سوشلسٹ انقلاب کے دور کے آخری مرحلے کے قریب پہنچ رہا ہے جس کا آغاز 1914 میں پہلی عالمی جنگ کے آغاز اور 1917 میں اکتوبر انقلاب میں روسی سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔ فرسودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے اور ناقابل حل تضادات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مخالفت جنم لے رہی ہے اور اسکی نشوونما کو بڑھ رہی ہے۔
عالمی ٹراٹسکیسٹ تحریک کو جس فریضہ کا سامنا ہے اور جس کی نمائندگی چوتھی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی کرتی ہے محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی تحریک کے اندر ایک سیاسی سمجھ بوجھ اور سمت پیدا کرنا ہے اور اسے سوشلزم کے لیے ایک شعوری تحریک میں تبدیل کرنا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرتے ہوئے ایک حقیقی سماجی مساوات کی بنیاد رکھے گی۔