اُردُو
Perspective

امریکہ پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔

یہ 24 اکتوبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'US inflames war throughout the Middle East' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ طیارہ بردار بحری جہاز 11 اکتوبر 2023 کو مشرقی بحیرہ روم میں تیل بھرنے والے یو ایس این ایس لارامی سے ایندھن بھر رہا ہے۔ (اے پی کے ذریعے امریکی بحریہ کی تصویر) [اے پی فوٹو] [AP Photo]

امریکہ جس کی فوج نے پچھلے 25 سالوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی جنگوں کے دوران دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حملے کو پورے خطے میں وسیع جنگ کو ہوا دینے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجیں جنگی جہاز اور ہوائی جہاز بھیج رہا ہے۔ کم از کم 10,000 ملاح، سپاہی اور فضائیہ کے اہلکار پہلے ہی خطے میں تعینات کیے جا چکے ہیں اور فوجیوں کی ایک غیر متعینہ تعداد جو ممکنہ طور پر دسیوں ہزار میں ہے کو تعینات کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی کی مکمل حمایت کی ہے جو عام شہریوں پر بڑے پیمانے پر بمباری کے ذریعے ہو رہی ہے جس میں ہر روز 300 سے 400 افراد ہلاک ہو رہے ہیں، نیز آبادی کی جان بوجھ کر بھوک اور پانی کی کمی کو ڈھال کے طور پر استمعال کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ ہتھیار فراہم کر رہا ہے جس سے اسرائیل بیک وقت لبنان، شام اور مغربی کنارے پر حملے کر رہا ہے۔

امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی اور اسرائیل کو امریکی کی سیاسی فوجی اور لاجسٹک مدد پورے خطے میں امریکی فوج میں اضافے کا صرف ایک جزو ہے۔

ہفتے کے روز سکریٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن نے 'ایران کی طرف سے بڑھتی ہوئی کشیدگی' کا حوالہ دیتے ہوئے خطے میں امریکی فوج کی 'مضبوطی' کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔ آسٹن نے کہا کہ وہ پورے خطے میں امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم کو الرٹ پر رکھے ہوئے ہیں اور 'اضافی تعداد میں فورسز کو آرڈر کی تعیناتی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔'

امریکی فوج نے زور دے کر کہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران عراق میں تعینات فوجیوں پر ایرانی پراکسی فورسز کے حملے ہوئے ہیں۔

“پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے سموار کے روز کہا کہ 'ایران ان واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور بعض صورتوں میں ان حملوں کو فعال طور پر سہولت فراہم کر رہا ہے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو اپنے یا ایران کے مفاد کے لیے تنازعہ کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں'۔

اتوار کو ایک انٹرویو میں سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا کہ 'ہم توقع کر رہے ہیں کہ ہماری افواج کے خلاف ایرانی پراکسیوں کی جانب سے ہمارے اہلکاروں کے خلاف حملوں کی ہدایات بڑھنے کا امکان ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کا مؤثر طریقے سے دفاع کر سکیں اور اگر ہمیں ضرورت ہو تو فیصلہ کن جواب دے سکیں۔

بلنکن نے اصرار کیا کہ 'یہ وہ نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں وہ نہیں جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں۔ ہم جنگ میں اضافہ نہیں چاہتے۔' انہوں نے مزید کہا 'ہم نے خطے میں بہت اہم اثاثے بھی تعینات کیے ہیں جن میں دو طیارہ بردار جنگی گروپ بھی ہیں جس سے اشتعال انگیزی کے لیے نہیں بلکہ اسے روکنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔'

بلینکن ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ اضافہ امریکہ کی طرف سے ہے جو مشرق وسطیٰ کو فوجوں اور ہتھیاروں سے بھر رہا ہے۔

امریکہ اپنی پراکسی اسرائیل کے ذریعے ایران کو مشتعل کرنے کی دانستہ کوشش میں غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور شام پر بمباری کر رہا ہے۔ یہ ایران کو جنگی جہازوں اور طیاروں سے گھیرے ہوئے ہے اور دھمکی دے رہا ہے کہ ان کے خلاف کسی بھی مبینہ حملے کو ایران پر حملہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

امریکہ نے 2003 میں اس ملک پر اپنے وحشیانہ اور غیر قانونی حملے کے بعد ہزاروں فوجی عراق میں رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی فوجی اسی طرح شام میں غیر قانونی طور پر شامی حکومت کی مخالفت میں تعینات ہیں۔ یہ تمام فوجی ایک لمحے کے نوٹس پر ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اسرائیلی حکام لبنان کے خلاف دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اتوار کو لبنان کے ساتھ سرحد پر فوجیوں کے ساتھ دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 'حزب اللہ اور لبنان کی ریاست کے لیے تباہ کن نتائج' سے خبردار کیا، 'ہم اسے ایسی طاقت سے ماریں گے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔' اسرائیل نے اپنی شمالی سرحد سے 200,000 سے زیادہ لوگوں کو نکالنے کا حکم دیا ہے۔

اتوار کے روز اسرائیل کے وزیر اقتصادیات نیر برکت نے دھمکی دی کہ اگر جنگ لبنان میں پھیل گئی تو 'ہم صرف ان محاذوں پر جوابی کارروائی نہیں کریں گے بلکہ ہم سانپ کے سر کو کچل ڈالیں گے جو ایران ہے۔'

اس دوران امریکہ اور دیگر سامراجی میڈیا ایران کے ساتھ براہ راست فوجی تصادم کی تحریک چلا رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ میں اداریہ کے صفہ میں ڈیوڈ شینکر، سابق امریکی معاون وزیر خارجہ برائے قریبی مشرقی امور نے کھل کر ایران کے ساتھ فوجی تصادم کا مطالبہ کیا۔ اُس نے کہا کہ 'تاہم مالی وسائل سے زیادہ مؤثر فوجی طاقت ہے۔ بدقسمتی سے غزہ میں جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے واشنگٹن کے پاس عسکری طور پر اس میں حصہ لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوسکتا ہے۔

جمعرات کو اپنی پرائم ٹائم تقریر میں بائیڈن نے امریکی عالمی تسلط کا ایک پرجوش نظریہ پیش کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ امریکی فوجی اور اقتصادی بالادستی دنیا میں متحد کرنے والا اصول ہے۔ بائیڈن نے کہا 'امریکی قیادت وہ ہے جو دنیا کو ایک ساتھ رکھتی ہے۔

وہ اگلے دن ایک اور مہم کے استقبالیہ میں اُس نے زیادہ واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ 'ہم 50 سال تک جنگ کے بعد کے دور میں تھے جہاں اس نے بہت اچھا کام کیا لیکن یہ ایک بھاپ کی طرح ختم ہو گیا ہے۔ اسے ایک لحاظ سے ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے جیسا کہ یہ ایک ورلڈ آرڈر تھا۔

یہ کہنا کہ جنگ کے بعد کا دور ختم ہو گیا ہے مؤثر طریقے سے عالمی جنگ کے نئے دور کا اعلان کرنا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کو بڑھا رہی ہے اور مشرقی یورپ سے مشرق وسطیٰ اور بحرالکاہل تک پھیلے ہوئے عالمی تسلط کے لیے عالمی سطح پر پھیلے ہوئے تنازعے کے طور پر ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ چین کے معاشی عروج اور امریکی معیشت کے عالمی زوال کا سامنا کرنے والا امریکی سامراج جنگ کو دنیا پر تسلط قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

امریکہ نے یوکرین میں جنگ کو بھڑکانے کے لیے کام کیا جس کا مقصد ماسکو کو ایک پراکسی تنازعہ کی طرف کھینچنا تھا جس کا مقصد ' سفید روسیوں کا خون بہانا' تھا۔ لیکن دو سال گزرنے کے بعد یوکرین کا تازہ ترین حملہ ناکام ہو گیا ہے اور امریکہ روس کو 'اسٹریٹیجک شکست' دینے کے لیے شدت سے تنازعہ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ اسی وقت واشنگٹن تائیوان پر چین کے ساتھ تنازعہ کو ہوا دے رہا ہے اور جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک اس کی رسائی کو روک کر چین کا معاشی طور پر گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بائیڈن کی طرف سے گزشتہ ہفتے ان تمام محاذوں کے لیے 105 بلین ڈالر کے اضافی فوجی اخراجات کے لیے کال درحقیقت تیسری عالمی جنگ کے ابتدائی مراحل میں اضافے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

امریکہ روس اور چین کا مقابلہ کر رہا ہے جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں اور اسرائیل کی پارلیمنٹ کے کم از کم ایک رکن، گوٹ لیو نے موجودہ تنازعہ میں 'قیامت خیز ہتھیار' کے استعمال پر زور دیا ہے۔ واشنگٹن کے فوجی تشدد میں اضافے سے انسانی تہذیب کو خطرہ ہے۔

لیکن امریکی سامراج کی جانب سے عالمی جنگ کو بھڑکانا وسیع عوامی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں لاکھوں لوگوں نے ہر آباد براعظم میں فلسطینیوں کے خلاف امریکی اسرائیلی نسل کشی کی مخالفت میں مظاہرہ کیا۔ لندن میں 2003 میں عراق پر حملے کے بعد شہر کی سب سے بڑی جنگ مخالف ریلی میں 300,000 افراد نے حصہ لیا۔

اس ابھرتی ہوئی جنگ مخالف تحریک کو مزید گہرا اور وسیع کیا جانا چاہیے۔ جنگ کے خلاف بڑھتی ہوئی تحریک کو ملازمتوں اجرتوں اور معیار زندگی کے دفاع کے لیے لڑنے والے مزدوروں کی عالمی ہڑتال کی تحریک کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ اس کے لیے محنت کش طبقے میں ایک سوشلسٹ قیادت کی تعمیر کی ضرورت ہے جو جنگ کے خلاف لڑائی کو سرمایہ دارانہ منافع بخش نظام کی مخالفت کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھائے۔

Loading